شیخ الاسلام حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ
- Admin
- Nov 06, 2021
« مختصر سوانح حیات »
آپ ؒ کا اسم گرامی سید محمد بختیارؒ ہے۔ آپؒ کا لقب قطب الدین اور کاکی ہے۔ آپؒ کا خاندانی تعلق حسینی ساداتِ کرام سے ہے۔
خواجہ قطب الدین سید بختیار کاکی بن سید کمال الدین احمد بن سید موسیٰ بن سید محمد بن سید احمد بن سید اسحاق حسن بن سید معروف بن سید احمد بن سید رضی الدین بن سید حسام الدین بن سید رشیدالدین بن سید جعفر بن امام تقی بن امام علی رضا بن بن امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہم اجمعین)
(سیر الاقطاب:168/ اقتباس الانوار:392/ خزینۃ الاصفیاء:77)
اس لقب کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں: کاک ’’کُلچے‘‘ کو کہتے ہیں۔
حضرتؒ کو ایک مرتبہ چند(دن) فاقے ہوئے تھے اور گھر بھر میں کسی کے پاس کچھ کھانے کو نہ تھا، اُس وقت آسمان سے آپؒ کے واسطے کاکیں آئی تھیں یوں کاکی مشہور ہوگئے۔
(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت: 482)
کہ آپؒ جب دہلی میں تشریف لائے تو کوئی نذرانہ وغیرہ قبول نہیں فرماتے تھے۔ ایک مسلمان دوکاندار شرف الدین نامی آپ ؒکا ہمسایہ تھا اس سے قرض لیتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت کے گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا، ایک دو دن کے فاقے بھی ہو چکے تھے۔ حضرت کی اہلیہ نے شرف الدین کی بیوی سے نصف ٹکہ قرض لیا۔ ایک دن اس نے طعن آمیز لہجے میں کہا کہ اگر ہم تمہیں قرض نہ دیں تو تم بھوکے مرجاؤ۔ یہ بات حضرت کی اہلیہ کو نا گوار گزری، اور دل ہی دل میں عہد کر لیا کہ آئندہ کسی سے قرض نہیں لوں گی، اور یہ بات حضرت کی خدمت میں بھی عرض کردی۔ حضرت نے فرمایا کہ جب تمہیں کھانے کی ضرورت ہو اس طاق سے بسم اللہ پڑھ کر کاک (روٹی) نکال لیا کرو۔
(سیرالاقطاب:174)
آپؒ کی ولادت باسعادت بوقت نصف شب، بروز پیر 582ہجری مطابق 1186ء کو بمقام ’’اوش‘‘ وادیِ ’’فرغانہ‘‘ موجودہ (کرغیزستان) میں ہوئی۔
(تذکرہ اولیائے برصغیر: 48/انسائیکلو پیڈیا)
آپ ؒکی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں: پیدائش کے وقت انوار و برکات کا اس قدر نزول ہوا کہ میں نے سمجھا کہ آفتاب طلوع ہوگیا ہے، اور فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا پیدا ہوتے ہی آپ سجدہ میں چلے گئے اور اللہ اللہ کہہ رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر میں حیران ہوئی اور ڈرنے بھی لگی۔ اس کے بعد آپ ؒنے سر اوپر اٹھایا اور رفتہ رفتہ وہ نور کم ہوگیا۔ غیب سے آواز آئی کہ یہ نور جو تم نے دیکھا ہے ہمارے رازوں میں سے ایک راز تھا جو ہم نے تمہارے بیٹے کے قلب میں رکھا ہے۔
پھر فرماتی ہیں: کہ جب حضرت خواجہ میرے پیٹ میں تھے تو میں تہجد کے وقت اٹھتی تھی اور نماز پڑھتی تھی اور میرے پیٹ میں جنبش ہوتی تھی اور ذکر کی آواز آتی تھی۔
(اقتباس الانوار: 392/سیر الاقطاب169)
آپؒ کی ڈیڑھ سال کی عمر تھی کہ والد گرامی کا انتقال ہوگیا۔ پرورش کی ساری ذمہ داری والدہ محترمہ کو سنبھالنا پڑی۔ عجیب اتفاق ہے کہ یہ معاملہ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ عنہ کے ساتھ بھی پیش آیا تھا اور یہ بھی تاریخی صداقت ہے کہ مائیں تقویٰ شناس ہوں تو اولاد ولی کامل بنتی ہے۔
یتیمی کی مشکلات واضح ہیں، مگر ماں نے ان چیزوں کو رکاوٹ نہ بننے دیا، بلکہ بعد میں آنے والی ماؤں کو پیغام دیا کہ تمھاری آغوش سے بھی غوث و قطب پیدا ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ ان کی تعلیم و تربیت سیرتِ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے سائے میں کی جائے۔جب پانچ سال کے ہوئے تو والدہ ماجدہ نے ایک ہمسایہ کے ساتھ بھیج دیا کہ کسی قابل و صالح مُعلم کے حوالے کر آؤ۔ راستے میں ایک بزرگ نے کہا بچے کو ابوحفص ؒاوشی کی خدمت میں لے جاؤ۔ پھر خود بھی بچے کے ساتھ شیخ ابو حفص ؒکے ہاں آگئے۔ ان سے فرمایا: ’’احکم الحاکمین کا حکم ہے کہ اس بچے کو توجہ کے ساتھ پڑھائیں، اور یہ کہ کر وہ واپس چلے گئے۔استاد نے آپ ؒکو پیار کیا اور فرمایا تم خوش نصیب ہو، کہ حضرت خضر علیہ السلام تمہیں میرے حوالے کر گئے ہیں‘‘۔
(اقتباس الانوار:394)
سبع سنابل اور سیرالاقطاب میں ہے: کہ جب استاذ ابتداء سے پڑھانے لگے تو عرض کیا کہ مجھے پندرہ پارے یاد ہیں۔ استاذ نے پوچھا یہ پارے کہاں سے یاد کیے ہیں۔ جواب دیا کہ میری والدہ کو پندرہ پارے یاد تھے، وہ اکثر انہیں کی تلاوت کرتی رہتی تھیں، ان سے سن سن کر میں نے شکمِ مادر میں ہی یہ پارے حفظ کرلئے ہیں۔
(سیرالاقطاب:169)
آپ ؒتمام علوم ِ مروجہ کے عالم ِکامل تھے۔
آپ ؒعلوم ِ ظاہری کی تحصیل کے بعد سلسلہ عالیہ چشتیہ بہشتیہ میں خواجۂ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے، اور سترہ سال کی عمر میں خلافت سے مشرف ہوئے۔ آپ ؒکے تذکرے میں ہے کہ سرورِ عالمﷺ نے حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کو حکم فرمایا تھا کہ قطب الدین خدا کا دوست ہے، اس کو خرقہ پہناؤ۔
(شمس العارفین نمبر:36)
دلیل العارفین، سراج الکاملین، بدر الواصلین، قائد المحبین، قطب آسمانِ ولایت، غیاث الہند، نائبِ سلطان الہند، قطب الاقطاب، شیخ الاسلام حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپؒ اپنے وقت کے ولیِ کامل، اور خاندانِ رسالت کے چشم و چراغ تھے۔ حضرت خواجہ غریبِ نواز کے خلیفۂ اعظم تھے۔ ہرشب سو رکعت کے علاوہ تین ہزار مرتبہ درود شریف پڑھتےتھے۔ تین دن خانگی مجبوری کی وجہ سے یہ تحفہ ارسال نہ کرسکے تو دربارِ مصطفیٰﷺ سے پیغام آیا کہ تمھارا ہدیہ تین راتوں سے نہیں پہنچا۔
(سیر العارفین: 24)
ایک دن تمام مریدین مجلس میں جمع تھے۔ سوال و جواب کا سلسلہ جاری تھا۔ حضرت خواجہ غریب نواز فرمانے لگے:
عارف کی مثال چمکنے والے آفتاب کی طرح ہے جس کے نور سے پوری دنیا روشن ہے۔ پھر فرمایاکہ اے درویشو! ہمیں یہاں (ہندوستان) بھیجا گیا ہے۔ ہماری قبر بھی یہیں ہوگی اور چند روز کے اندر ہم سفر آخرت کریں گے۔ اس کے بعد شیخ علی سنجریؒ سے فرمایا کہ ایک تحریر لکھو کہ قطب الدین ؒدہلی روانہ ہوجائے۔ ہم نے خلافت و سجادہ قطب الدین کو دےدی اور ان کا مقام دہلی ہوگا۔ جب حکم نامہ مکمل ہوگیا تو اس فقیر (خواجہ قطب الدینؒ) کو عنایت فرمایا۔ اس فقیر نے سرِ تسلیم جھکا دیا۔پھر فرمایا۔ ذرا قریب آجاؤ، میں قریب ہوا تو دستار و کلاہ میرے سر پر رکھ کر خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کا عصا عطا فرمایا، اور خرقہ پہنا کر قرآنِ کریم، جائے نماز اور نعلین عطا فرمائے اور فرمایا کہ رسولِ اکرم ﷺ کی یہ امانت مشائخِ چشت کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے تم بھی اسے جاری رکھنا تاکہ قیامت کے دن مشائخ کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔ اس فقیر نے سر جھکا دیا۔ پھر دو رکعت نماز ادا کی۔ اس کے بعد حضرت مرشد نے میرا ہاتھ پکڑا اور آسمان کی طرف منہ کرکے فرمایا۔ اب جاؤ تمہیں اللہ کے سپرد کیا ،اور اللہ تعالیٰ تمہیں منزل پر پہنچائے۔ پھر فرمایا کہ چار چیزیں نفس کا جوہر ہیں، (اول) درویشی میں تونگری کرنا، (دُوم )بھوک میں سیر نظر آنا، (سوم )غم میں مسرور معلوم ہونا، (چہارُم) دشمن سے بھی دوستی کا معاملہ کرنا، پھر فرمایا جہاں بھی جاؤ کسی کا دل نہ دُکھانا، اور جہاں بھی جاؤ مَردوں کی طرح رہنا۔
(اخبار الاخیار: 75)
حضرت محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ جب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے دہلی میں سکونت کرلی تو وہاں کے تمام اکابر، امراء و رؤساء اور عوام آپؒ کی نیک صورت اور نیک سیرت پر شیدا ہوگئے۔ ایک دن حضرت اقدس نے اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ غریب نواز ؒکی خدمت میں خط لکھا اگر اجازت ہو تو حاضر ہوکر شرفِ قدم بوسی حاصل کروں۔ حضرت خواجہ غریب نواز قدس سرہٗ نے جواب میں لکھا المرءُ مع من اَحَبّ (آدمی اسکے ساتھ ہوتا ہے جس سے اُسے محبت ہو) یعنی روحانی طور پر میں آپ کے ساتھ ہوں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ کچھ عرصہ بعد میں خود دہلی آؤں گا۔ یہ جواب سن کر آپ ؒنے اجمیر شریف جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔
قیامِ دہلی کے کچھ عرصہ بعد شیخ الاسلام کے عہدے پر فائز شیخ جمال الدین محمد بسطامی علیہ الرحمہ کا وصال ہوگیا۔
چنانچہ سلطان شمس الدین التمشؒ نے حضرت اقدس کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ منصبِ شیخ الاسلام قبول فرمالیں۔ لیکن آپ ؒنے اس کی طرف ذرہ بھر بھی توجہ نہ فرمائی۔ آپؒ کے انکار کے بعد بادشاہ نے شیخ نجم الدین صغراء کو شیخ الاسلام مقرر کر دیا۔ پھر بتقاضائے بشریت شیخ نجم الدین میں معاصرت کی منافرت پیدا ہوگئی۔ جب شیخ نے حضرت خواجہ غریب نواز ؒسے یہ شکایت کی کہ قطب الاقطاب کے مقابلے میں میری’’ شیخ الاسلامی‘‘ کو کوئی نہیں پوچھتا۔ خواجہ صاحبؒ نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا کہ فکر مت ہو۔ میں اس مرتبہ قطب الدین کو اپنے ساتھ لے کر جا رہا ہوں۔ چند ایام کے بعد جب حضرت خواجہ غریب نوازؒ دہلی سے اجمیر تشریف لے جانے لگے تو حضرت قطب الاقطابؒ کو بھی ساتھ لے جانے لگے۔ یہ دیکھ کر خَلقِ خدا میں شور برپا ہوگیا اور تمام خاص و عام بمع سلطان شمس الدین روتے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔ حضرت خواجہ قطب الدینؒ جس جگہ قدم رکھتے تھے لوگ وہاں کی خاک اٹھا کر منہ پر ملتے تھے۔ جب حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے یہ ماجرا دیکھا تو فرمایا بابا قطب الدین تم اسی جگہ پر رہ جاؤ۔ تمہارے چلے جانے سے خَلق خدا پریشان اور بے حال ہے۔ مجھے یہ بات پسند نہیں کہ تمہاری جدائی میں اتنے دل جل کر کباب ہوجائیں۔ جاؤ۔ میں نے اس شہر کو ’’تمہاری پناہ میں دے دیا‘‘۔
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ارشاد آج تک اپنی عظمت منوا رہا ہے۔ حکومتیں بدلیں، سرحدیں تبدیل ہوئیں، لوگ بٹ گئے، لیکن یہ محبت و عقیدت آج بھی جولانی پر ہے۔
سیف اللہ المسلول حضرت شاہ فضلِ رسول بدایونی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ’’میں قطب العالم حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک میں مراقبہ کر رہا تھا۔ حالتِ مراقبہ میں دیکھا کہ حضور خواجہ صاحب رونق افروز ہیں اور دونوں دستِ مبارک میں اس قدر کتب کا انبار ہے کہ آسمان کی طرف حدِ نظر تک کتاب پر کتاب نظر آتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اس قدر تکلیف حضور نے کس لیے گوارا فرمائی ہے؟ ارشاد مبارک ہواکہ تم یہ بار اپنے ذمے لے کر ’’شیاطینِ وہابیہ‘‘ کا قلع قمع کردو۔ آپؒ نے مراقبہ سے سر اٹھایا اور اسی ہفتہ میں کتابِ مستطاب ’’بوارقِ محمدیہ‘‘ تالیف فرمائی‘‘۔
( نور نور چہرے: 203)
بروز پیر 14/ربیع الاول 635ہجری مطابق30 نومبر 1237ء کو واصل باللہ ہوئے۔ آپ ؒکا مزار دہلی میں مرجعِ خلائق ہے۔
سیر الاقطاب میں ہے کہ جب جنازہ تیار ہوگیا تو خواجہ ابوسعید ؒنے کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ حضرت خواجہ قطب الاقطابؒ نے وصیت فرمائی تھی کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے، جس نے ساری عمر اپنے آپ کو زنا سے محفوظ رکھا ہو، بلوغت سے لے کر آج تک عصر کی سنتیں قضا نہ کی ہوں، فرائض نماز کی تکبیر اولیٰ سے محروم نہ ہوا ہو، یہ اعلان سنتے ہی تمام حاضرین دنگ رہ گئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، آخر حضرت سلطان شمس الدین التمش آگے بڑھے اور فرمایا میں چاہتا تھا کہ میرا یہ راز کسی پر فاش نہ ہو۔ مگر آج میرے پیر و مرشد کی وصیت نے مجھے آشکارا کر دیا۔
خاکپائےنقشبندو اولیا۶
https://www.myislamicinfo.in/2020/11/blog-post_43.html